ڈی جی سندھ فوڈ اتھارٹی کی پوسٹ میں آخر

کیا جادو ہے

رپورٹ : شہریار جوکھیو

پنجاب فوڈ اتھارٹی کے قیام کے بعد سندھ میں بھی ایسی ہی اتھارٹی کا قیام پانچ چھ سال پہلے عمل میں لایا گیا۔۔شروع شروع کے افسران نے پنجاب کی خاتون افسر کی طرح زبردست کاروائیاں کیں

مضر_ صحت اشیا والوں پر قہر بن کر ٹوٹٹے ہر طرف سے یہ خبریں آنے لگیں کہ اتنے ہزاروں لیٹر کیمیکل ملا دودھ پکڑ کر ضایع کیا گیا، غیر معیاری بریڈ، گھی، بیکری ائٹمز سے لیکر ضرورت زندگی کی تمام اشیاء میں ملاوٹ کرنے والوں کے خلاف بڑے بڑے جرمانے عائد کرنے کے ساتھ فیکٹریاں سیل کردی گئیں،

ریسٹورنٹ میں صفائی کا معیار بہتر نہ ہونے اور زائد المعیاد اشیاء پانے پر ریسٹورنٹ سیل کردیے گئے۔۔ایک اچھا نام ادارے کا بنا تو پھر ابرار شیخ سمیت بہترین کام کرنے والے افسران فارغ کردیے گئے پھر آھستہ آھستہ سندھ فوڈ اٹھارٹی کی کاروائیاں بھی کم ہوگئیں

۔۔اسی اثناء میں ایک سال سے جس افسر کو ڈی جی سندھ فوڈ اٹھارٹی تعینات کیا گیا ہے اس کے قصے کہانیاں بھی بہت مشہور ہیں ۔آغا فخر حسین صاحب نے ایک نیا رخ دے دیا اس ادارے کو۔۔انہوں نے بند کاروائیوں کی جگہ نمائشی کام کرنا شروع کیا۔

مثال کے طور پر چھاپے بھی زیادہ سے زیادہ لگنے لگے لیکن انہیں جرمانے کے طور پر کچا چالان دیا جانے لگا۔ دو سے ڈہائی لاکھ والے چالان لیکر جب بندے فوڈ اتھارٹی کے دفتر پہنچتے تو آغا کے بندے ان کو آغا صاحب کی پرسنلٹی پر اتنا ڈراتے کہ بیچارے خوف کے مارے سوچ میں پڑ جاتے کہ اتنے بااثر افسر سے کیسے جان چھوٹیگی۔

پھر آغا صاحب کے دست راست ملازم انہیں طریقہ نمبر 13 بتاتے جس کے تحت جرمانے کی رقم لاکھوں سے کم ہوکر ہزاروں میں ہوجاتا وہ چالان بھی جمع کرتے، اور ساتھ میں سیٹنگ کرکے چلا جاتا، سب اپنی اپنی جگہ خوش۔

اس طرح کی صورتحال کے بعد ملازمین کی محنت رنگ لے آئی اور رات کو دو سے تین بجے تک دفتر کھول کے بیٹھنے والے ڈی جی صاحب کے پاس نئی شاندار گاڑی آگئی اور صاحب بہادر اس نئی گاڑی میں جلوہ گر ہونے لگے۔۔اسی اثناء میں انہوں نے مختلف آقائوں کے حکم پر ڈیلی ویجز پر ملازمین کی ایک فوج بھی بھرتی کرلی جس میں اپنے ذاتی ملازمین اور رشتیداروں کے نوکر چاکر بھی رکھ لیے جبکہ کچھ غریبوں کا بھی بھلا ہوا لیکن جو نوکر تھے ان سے گھروں میں کام لینے لگے اور تنخواہ سندھ فوڈ اتھارٹی دینے لگی

۔کھٹارا گاڑی سے زیرو میٹر گاڑی کے مزے لوٹنے والے آغا صاحب کو نگراں حکومت میں تبدیل کرنے کے لیے سمری الیکشن کمیشن ارسال کی گئی جس میں ایک بہترین خاتون افسر کا نام ڈی جی سندھ فوڈ اتھارٹی تجویز کیا گیا ،اتفاق سے الیکشن کمیشن سے تمام نام منظور ہوگئے نگراں سرکار نے ان کے نوٹفکیشن جاری کردیا لیکن آغا فخر حسین کے ہاتھ الیکشن کمیشن تک پہنچ گئے اور واپس آنے والی سمری میں اس کا نام نہیں تھا۔اب اندازہ کریں کہ آخر کچھ تو کرامت ہے اس پوسٹ میں کہ الیکشن کمیشن سے بچاتے بچاتے

نگراں سرکار سے بھی خود کو بچاگئے۔۔

حال ہی میں افسران کو گریڈ 20 کی ترقی کے لیے نیپا میں ایک کورس کرنا پڑتا ہے جس میں بھی آغا فخر حسین کا نام تیسرے نمبر پر ہے، باقی سارے افسران نے اپنے کیریئر کو اہمیت دیکر عہدہ چھوڑ دیا، لیکن قائداعظم، علامہ اقبال اور دیگر مدبران کی فلاسافی بتانے والے آغا فخر نے بیماری کا بہانہ بناکر کورس پر جانے سے انکار کیا اور کرسی پر چپ کر بیٹھ گئے۔۔سندھ سرکار اب اس رٹائرڈ شہزادے سے پوچھے کہ آخر آپ نے اس پوسٹ سے نکاح کیا ہے کہ جان نہیں چھوڑ

رہے

افسران کے لیے ترقی بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے لیکن اس صاحب نے گریڈ 20 کی ترقی کے لیے آنے والے کورس کرنے سے دوسری بار انکار کردیا، آخر ایسی کیا بات ہے کہ یہ صاحب سندھ فوڈ اٹھارٹی سے نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ سندھ میں دودھ کی حالت یہ ہے کہ لوگ زہریلا دودھ پینے پر مجبور ہیں، اب انڈے بھی پلاسٹک کے مارکیٹ میں آگئے جو زیادہ تر استعمال ہورہے ہیں، غیر معیاری آئل، سے لیکر خوردنوش کے ایک سو ائٹم ہونگے عوام وہ کھاکر بیماریوں میں جکڑ چکی ہے اور اس صاحب کو کروڑوں لوگوں کی صحت کی کوئی پرواہ نہیں اور رہینگے بھی اس عہدے پر۔۔

سندھ کے عوام کو چاہیے کہ صوبے میں مضر صحت اشیاء کے لیے مہم چلائیں اور اداروں میں بیٹھے ایسے افراد کے لیے عدالت میں جاکر فریاد کرنا چاہیے کہ سیاسی سرکار ہماری بات نہیں سن رہی عدالت ہی ہمیں رلیف دلائے۔۔صرف ان سے پوچھیں کہ سات سالوں میں کتنے کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والوں کو لائسنس جاری ہوسکے ہیں کراچی کی تین کروڑ آبادی کو بھینس کالونی سے فراہم ہونے والے باڑے سے کتنا دودھ روزانہ نکلتا ہے جو شہریوں کی ضرورتوں کو پورا کررہی ہے باقی دودھ کہاں سے آرہا ہے، پلاسٹک کے انڈے کون تیار کررہا ہے، زائد امعیاد اشیاء سپر اسٹورز میں زیادہ دنوں تک کیوں فروخت ہورہے ہیں؟؟ کیا مدہ خارج اشیاء کھانے سے کراچی سمیت سندھ بھر کے اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد بڑہی ہے یا کم ہوئی ہے۔

غیرمعیاری پانی فروخت ہونے سے 70 سے 80 فیصد شہریوں کو اگر صاف اور معیاری پانی مل جائے تو کیا وہ صحت مند زندگی نہیں گذارینگے

Author

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *